قسط ۳:-

انجن مُلا:-

سکول میں ہمارے ایک استاد تھے۔ اصل نام شاید گل فراز صیب تھا مگر ان کے گفتگو اور جوش خطابت کی وجہ انہیں انجن ملا کہا کرتے تھے۔ عربی اور اسلامیات بھی پشتو میں پڑھاتے اور رنگین کاپیوں اور اچھی ہینڈ رائٹنگ والے بچوں کو کافی پسند کرتے۔

جماعت نہم کی بات ہے۔ہمارے اسلامیات کے استاد تھے جناب انجن ملا ۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد وہ پہلے دن داخل ہوئے ۔ اور کہا گرمیوں میں کیا یاد کیا ۔ ، ہم نے کہا جناب آپ واحد استاد تھے جس نے کوئی کام کرنے کا کہا ہے ہی۔ اس پر جی انجن ملا تپ گئے۔ اور کاپی اور کتاب اُٹھائی اور سوال جواب سننے لگے۔

کلاس کے مانیٹر نے سارے سکول میں گھوم گھوم کر سوٹی ڈنڈوں کا بندوبست کیا ۔ اور ہمارے استاد انجن ملا کا انجن اس دن ایسا گرم ہوا کہ مت پوچھ ۔

جس جس کو سبق یاد نہیں ہوتا ، اسے بڑے آرام سے کہتا بیٹا باہر گراونڈ میں جاؤ اور کان پکڑ لو ۔

آہستہ آہستہ پورے کا پورا کلاس باہر ہوگیا۔ نہ ہمیں حدیث یاد تھی نہ کوئی سورت کی شان نزول اور نہ ترجمعہ ۔ اب باہر ایک لائن بنی۔ اور انجن ملا نے

پہلے اپنی گھڑی اتاری۔ پھر اپنی پگڑی ، پھر اپنے ناڑے کو کس کر باندھا ، اور ایسے شلوار کو اُنچا کیا کہ ابھی جنازے کی نماز پڑھانے والے ہیں۔ ڈنڈو کے انتخاب میں ایک ڈنڈا جو ہمارے پی ٹی والے استاد کا تھا وہ اُٹھایا ۔ شروعات ہمارے کلاس کے سب سے موٹے دوست سے کی۔ نام اور شخصیت یہاں لکھ نہیں سکتا کیونکہ وہ بندہ آج کل بڑی داڑھی اور بچوں کا باپ ہے اور دبئی میں کام کرتا ہے۔ خیر انجن ملا نے اسے ڈنڈے اور لاتیں ماریں۔ اب جوش اور جذبے والا سین تھا بھائی۔

لڑکے آگے آگے ۔ انجن ملا پیچھے پیچھے ۔ پورے گراونڈ میں جیسے گھوڑے بھاگ دوڑ رہے ہو۔ کسی کو سر تو کسی کو پیٹھ اور کسی کو ناک پر ڈنڈے لگے۔

خیر اس دن انجن ملا ہمارے کلاس کی سروس کرتے کرتے تھک گیا اور کہا کہ باقی کی کاپی سننے کل آؤنگا۔

اس پریڈ کے بعد ہمارے استاد رضا خان صیب آۓ۔

ان کو پورا واقعہ سنایا اور کہا ۔ جناب یہ تو ظلم ہے۔ رضا خان صیب گپ شپی استاد تھے۔ رضا خان صیب نے کہا یہ استاد نہیں ڈومیل کا سنڈا ہے۔ اور ایسے تو کوئی جانوروں کو بھی نہیں مارتا۔ پھر دوسرے دن دیکھا تو کلاس کے ہیڈ ماسٹر نگاہ حسین صیب تعجب سے پوچھنے لگے کہ آدھی کلاس کیوں نہیں آئی۔ ہم نے کہا، جناب کل انجن ملا نے ساروں کی سروس کی ہے۔ نگاہ حسین صیب ہنس ہنس کر کمرے سے چلے گئے۔

پھر آئے ہمارے انگریزی کے خٹکی استاد ۔ ان کی داستان بہت فنی ہے۔ جناب وہ اپنی متاثر کن انگلش اور پشاور میں کسی پرائیوٹ کالج میں لڑکیوں کو انگلش پڑھا چکے تھے۔ یہ کچھ ایسی سکول کی آپ بیتیاں ہیں جو سرکاری سکول کے بچے سمجھ سکتے ہیں۔ ان میں ایک سبق ہے، جو آج کل کے پرائیوٹ اور ممی ڈیڈی برگرز بچے نہ سمجھ سکتے ہیں نہ اس میں چھپی یادیں محسوس کر سکتے ہیں۔

جب ہمارے بڑے سکول اور کالج کا زمانہ یاد کرتے آنکھوں کے آنسو چھپاتے تو ہم سوچتے تھے کیا بے وقوف لوگ ہیں کوئی بھلا اپنا سکول اور کالج بھی مِس کرتا ہے؟

اور آج دس پندرہ سال بعد جب میں سوچتا ہوں، ہر وہ دوست جو ہر دن کوئی نہ کوئی ڈرامہ کرتا ، آج دبئی میں ہے ، یا ہنگو روڈ پر دکان کرتا ہے، یا اسپتال میں لیبارٹری ٹیکنیشن ہے یا سکول کالج کا استاد ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔ یا وہ پولیس میں ہے ۔ بس یاد آتا ہے اور جب ان سے ملتا ہوں ، دل کرتا ہے ان سے ایک بار معافی مانگو ، اور دل سے کہوں کہ یار تم ہیرے ہو ، اور مجھے تم سے بے حد پیار ہے۔

کوشش ہوگی کہ ہر جمعے کچھ نہ کچھ یہاں شیئر کرتا رہوں۔

مسافروں اور سرکاری سکول والے دوستوں کو محبت بھرا سلام ۔

ایڈمن

کوہاٹ انسائیڈر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *