Weekly article Epic 5 Dilnawzo

قسط 5 :- دلنوازو کا خواب

دلنواز خان ہندکوال دوست تھا ۔ سیدھا سادھا ، عمر میں ہم سے کافی بڑا ، ماں باپ بھائیوں کا لاڈلا اور نہایت کام چور ، بے روزگار اور کیونکہ اللہ اللہ کرکے اس نے میٹرک پاس کیا تھا تو اسے دبئی یا عرب ممالک میں مسافری کرنا اپنی شان کے خلاف لگتا تھا اور یہ امریکہ یا انگلینڈ جانا چاہتا تھا ۔

ہمارے محلے میں ایک افغان فیملی رہتی تھی۔ تقریباً 2004-2005 کی بات ہے۔ اس افغان فیملی میں دو بھائی تھے۔ ایک یورپ پہنچ گیا تھا اور ایک ابھی اپنے والد کیساتھ فارمی مرغیوں کا کاروبار کرتا تھا۔ وہ ہمارے بچپن کا دوست بھی تھا اور ہندکو ، اردو ، پشتو فارسی سب بولتا تھا ۔ افغان دوست کا نام نہیں بتا سکتا بس اسے غصے میں دلنواز کُکڑی بلاتا اور ہم ماجر ۔ دلنواز کی فیملی بھینس اور دودھ کا کام کرتے اور دلنواز کو یورپ جانے کا شوق تو تھا ہی ۔ یہ افغان دوست روز شام کو بیٹھ جاتا اور دلنوازو کی مفت کی چائے پیتے پیتے براستہ ایران ترکی بلغاریہ اور رومانیہ تک کی سیر کروا لیتا ۔ جو واقعہ اب میں سنانے لگا ہوں وہ بلکل سچا اور کانوں آنکھوں سے دیکھا سنا ہے۔

سردیوں کے مازیگری سے شام تک اگر مفت کی اعلی چائے وہ بھی دلنوازو کے بھینس کی دودھ کی تو اور کیا چاہیے ۔ تو بس دلنواز نے ارادہ کیا ۔ ککڑی ماجر نے آکر کہا آج دلنواز میں تمھیں سب صاف صاف بتاتا ہوں ۔ چلنا ہے تو اگلے اتوار کے صبح ریڈی ہوجانا۔ چالیس پچاس ہزار کی چال ہے۔ (چال) افغانی موقع یا اس سفر یا ٹرائی کو کہتے ہیں۔

خیر چائے بننا شروع ہوئی۔ دلنواز کے پاس اپنی جمع پونچی دو دنبے اور ایک سیونٹی کھٹارا موٹرسائیکل تھی، کچھ کبوتر مرغیاں بیچ کر اس کے پاس 15-20 ہزار نقد بھی تھے۔ حساب کتاب کیا تو بس مشکل سے پچاس پچپن ہزار دستی پیسوں کا انتظام کیا اور ہر چیز کا لم سم ریٹ لگایا۔

تو اب چائے کے پہلے گھونٹ کیساتھ ہی دلنواز اور ککڑی کو کراچی کی بس میں بیٹھنا تھا ۔ دلنواز نے گرم کپڑے ، سامان بیگ ، سروس والے نئے شوز ۔ سب ریڈی کیا ۔ جی سفر شروع ہوگیا۔ کوئیٹہ تک پہنچے ، وہاں سے ایران، دلنواز ایران میں تھوڑا خفا سا ہوگیا اور بولا یار ککڑی تجھے تو فارسی آتی ہے میں کیوں خاموش ہوں۔ خیر ایران میں لمبا سفر کرکے وہ ترکی کے بارڈر پہنچنے والے تھے کہ ایرانی پولیس سے بھاگنے پر دلنواز بیچارا گاڑی سے گرتے گرتے بچا۔ تو میں نے کہا ، دلنواز بھائی چائے ، دلنواز نے غصے سے دیکھا اور کہا:””مینڈا مار گھتا نے تے تینڈا چاہ نی پڑی وائی اے۔ “”

خیر، وہ افغان بھائی نے دلنواز کو حؤصلہ دیا اور کہا آگے سفر مشکل ہے ابھی تو ایران بھی کراس نہیں ہوا۔

خیر تین دن بعد وہ ترکی پہنچے۔ ترکی میں دلنواز کو کچھ کچھ یقین آیا جب اس نے اپنے خیالات میں ترکش لڑکیاں جینز میں دیکھی۔ تو دلنواز نے کہا افغانی سے ۔ ::یارا ککڑی ادھُر کتھے کم ڈھونڈ۔۔ اگے نہ وینے۔ :: مگر وہ افغانی نہ مانا ، کہا میرا بھائی ہمارا انتظار یورپ میں کر رہا ہے۔ یہ سب تو کچھ بھی نہیں بس آگے دیکھتا جا۔ اور دلنواز تھا کہ بھائی الگ نشے میں تھا ۔

میں اب کچھ بول بھی نہیں سکتا تھا کیوں کہ کدھر دلنواز کو نہ لگے کہ ہم ترکی نہیں بلکے جرونڈے کے بائی پاس پھاٹک کے پاس بیٹھے ہیں۔

خیر سفر جاری تھا۔ اور چائے اور سگریٹ پیے جا رہے تھے۔ ترکی سے بلغاریہ جانے کی ڈیل ہوگی ۔

دلنواز نے چائے اور سگریٹ تازہ کی۔ اب جی سفر ہے وہ افغانی آگے اور ہمارا دلنواز پیچھے پیچھے ۔ دلنواز کو بلغاریہ کے لوگ بلکل اچھے نہیں لگے۔ تو افغانی بھائی نے کہا اچھا رومانیہ چلتے ہیں وہاں حلال خوراک بھی ہوگی اور بہت کچھ ۔ رومانیہ جاتے ان کو ایک دوست ملتا ہے جو کہتا ہے کہ سیدھے سربیا اور ہنگری سے گزرتے آسٹریا پہنچو۔ وہاں سے آسانی سے جرمنی ، فرانس اور سوئٹزرلینڈ جا سکتے ہو۔ بس آسٹریا میں ایک مسئلہ ہے کہ وہاں راستہ پہاڑی ہے اور پولیس ہیلی کاپٹر سے ہوائی گشت بھی کرتی ہے اور گولیاں مارتی ہے۔ اور اگر وہاں سے نکل گئے تو بس پھر تو مزے ہیں۔ سامنے جرمنی اور فرانس اور انگلینڈ ۔

خیر دلنواز نے کہا بھاڑ میں جائے رومانیہ ، بس آسٹریا چلتے ہیں۔ اب جی جب یہ پہنچنے لگے وہاں بہت اُونچے پہاڑ اور برف اور ٹھنڈ ۔ دلنواز بے چارا ادھر کانپنے لگا۔ خیر بس جیسے یہ لوگ وہاں پہنچے انہیں ہیلی کاپٹر کی آواز آئی ۔ تو افغانی نے کہا دلنوازو ، برف میں چپ جاؤ ۔ اور ہم نے دلنوازو کو برف میں چپانا شروع کیا۔ ادھر مقصد چائے کے آخری کپ کو حاصل کرنا تھا ۔ بس اب یہ افغانی خاموش اور میں تو بھائی سرے سے ہوں ہی نہیں وہاں ۔ دلنوازو بیچارا آوازیں لگاتا رہے کہ یار باہر نکلوں یا نہیں برف سے؟

اور یہ افغانی سیریسلی خاموش ہے۔

اور جیسے ہماری چائے ختم ہوئی ، افغانی نے دکھ بھری آواز سے کہا۔ آئی ایم سوری دلنواز ، برف میں تمھاری موت ہوگئی ہے۔اور تم برف سے نکل نہیں پائے۔

اور یہ بات تھی کہ دلنواز نے ایک لمبی سانس لی اور کہا

“ تینڈی سینڑوا ژواں ، مینڈا بروُف ایچ مار گھتائی کننہ”

اور یار بس یہ بات تھی کہ ہم ہنس ہنس کر پاگل ہوگئے۔ اب اس بات کو تو بیس سال گزر گئے ہیں۔

دلنواز کے بچے بھی جوان ہیں۔ اور وہ افغانی سنا ہے آج کل لاہور میں کپڑے کا کام کرتا ہے۔

یہ ہمارے دوست تھے۔ان کے گپ شپ کا الگ لیول تھا ۔

آپ کا ایڈمن

کوہاٹ انسائیڈر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *