Kohat Diary

ایک دفعہ کا ذکر ہے :-

قسط اوّل :-

پراچگان مدرسہ کے طالبان کے ہاتھوں فٹبال میں شکست ۔

یہ بات سن 2002 کی ہے۔ برازیل نے ورلڈ کپ جیتا تھا ۔ اور ہم نے بہت سی چوریاں اور ڈاکے ڈال کر کچھ فٹبال خدیدے تھے۔ قلعہ گراونڈ میں کرکٹ سے زیادہ فٹبال چل رہا تھا ۔ ہم کرکٹ والے یہی سمجھے کہ بھائی یہ گیم بھی کرکٹ والی ہوگی۔ بس وہاں پہنچ گئے ۔ وہاں پراچگان مدرسے کے طالبان جو وزیرستان یا بنوں سے تھے ، ان کی ایک فوج آگئی۔ لہٰذا ان سے فٹبال میچ کھیلنے کی غلطی ہم نے کردی ۔ اب وہ مدرسے کے میسی اور رونالڈو اور روبرٹوکالوس نکلے ۔ ہم نے وہ میچ نہایت ہی بے غیرتی سے ہارا ۔ خیر مشورے سے یہ بے پایا کہ ان سے اگر کوئی جیت سکتا ہے تو وہ زنگلو کے شینواری ہیں۔ مگر وہ دوست تو سارے کمیٹی ، کمپنی باغ اور کے ڈی اے میں کھیلتے تھے۔ تو ہمارے ایک دوست نے ویسے ہی بس بات جگڑے تک پہنچا ڈالی ۔ پھر کیا تھا ۔ یہ بنو والے ہم پر فٹبال کھیلنے لگے۔ اب کچھ ہی مینٹ میں یہ حال تھا کہ لات، مکے ، اور وہ جانور صفت لوگ ہمارے اوپر کود رہے تھے۔ میچ میں ہارنا تو ایک بات تھی، اب یہ مار کُٹائی جو اس دن کھائی ، سارے دوست ایک بات متفق ہوئے کہ کبھی کسی مدرسے کے طالب علموں سے فٹبال نہیں کھیلنا ، اور نہ جگڑا کرنا ہے۔ اس مار کٹائی کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ چینو جایا جائے ۔ مرہم پٹی اور نہانا چاہیے اور زنگلو میں شینواری فٹبالر دوستوں کو بھی بتا دینا چاہیے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا بلت کار ہوئے ہیں فٹبال کے نام پر ۔ یار اس دن جب ہم نے یہ واقعہ سنایا زنگلوال دوستوں کو تو ان سے پتہ چلا کہ وہ بھی متاثرین مدرسہ طالبان ہیں۔ ان لوگوں کا قصہ ہم سے بھی فنی نکلا۔ ہم تو فٹبال کے الف ب سے ناواقف کرکٹر لوگ، مگر وہ شینواری فٹبالر اصول اور کھیل کے طور طریقوں سے واقف تھے۔ ان کی ساری ٹیم لنگڑی اور کافی حد تک پاگل ہوگئی تھی جب ان کا میچ پڑا تھا ان مدرسے والوں کے ساتھ۔ اور وہ لوگ جمعے والے دن چینو سے اس طرف آتے بھی نہیں تھے جب سے ان کو پتہ چلا تھا کہ ایک سفید کپڑوں اور کالے رومالوں والی آندھی جمعے کو قلعہ گراونڈ آتی ہے۔ ۔ خیر ان میں سے بھی کچھ لوگ اپنے پاؤں اور سر پھاڑ چکے تھے۔ ان مدرسے کے خر دماغ بنوں کے طالبانوں کو بس ایک بات کا پتہ تھا ، فٹبال، فٹبالر ، کسی بھی کھلاڑی کو زور سے دھکا دینا ، فٹبال کو کک لگانا ، اور بھاگنا ہی اصل میں کھیل ہے۔ تو وہ شینواری دوستوں کی کہانی سن کر ہمیں اپنا غم نہ رہا ۔ وہ بچارے تو فٹبال کے میچ کی بات کرتے کرتے رو پڑے کہ ان کا ایک فٹبال قلعہ کے فوجی ایریا ، ایک اس طرف لیاقت ہسپتال اور ایک کا تو پتہ بھی نہیں چلا کیونکہ وہ شیر کوٹ والے سوزکی میں گیا ، طالبان اس کے پیچھے بھاگے مگر وہ سوزکی ڈرائیور اتنا ڈرا کہ کدھر تیراہ میں روکا ہوگا۔ تو ان کا وہ فٹبال بھی گیا اور واپس نہیں آیا ۔

خیر اس کے بعد ہمیں اپنے علاج اور جسم کے درد کا خیال آیا ۔ اس دن پتہ چلا کہ چرس سے اچھی چیز بدن کے درد کیلئے کچھ نہیں۔ خیر کچھ ممی ڈیڈی والے دوست بھی تھے تو وہ درد کی گولیاں اور ویکس اور ولٹرال خریدنے گئے۔

اس دن سب نے دس دس درد کی گولیاں تو کھائی ہونگی۔ ۔ سارے لڑکوں کو پورا ہفتہ بدن میں درد اور چلنے میں ایسی چلن کہ بندہ کہے ، ابھی تیراہ بازار والے شیخان میں رات کا پروگرام کرکے آئے ہو۔

بس وہ دن تھا اور آج کا دن، کبھی فٹبال کا نام نہیں لیا اور تجربے سے ثابت ہوا کرکٹ شریفوں اور سمجھ داروں کا کھیل ہے۔🤪🤣

ایڈمن ڈائیری کوہاٹ انسائیڈر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *