قسط :- 6
فرقے اور عقیدے
سکول اور کالج کے زمانے سے ہماری بحث ہندو عیسائی بھائیوں سے زیادہ اپنے مسلمان فرقوں والے لوگوں سے ہوتی ، جیسے شیعہ یا اہل حدیث یا اور بریلوی دیوبند والے کلاس فیلوز ۔
ایک دفعہ ہنگو یا تیراہ / پاراچنار / میں فرقعہ واریت کی کافی لڑائی ہوئی ۔ اہل تشیع حضرات نے نقل مکانی کی۔ جو مالی طور پر اچھے تھے وہ اسلام آباد ، پشاور اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بس گئے جو کمزور تھے وہ لوگ کوہاٹ آگئے۔ اچھا میرے والد کے کوئی پرانے دوست تھے۔ ان کی چار بیٹیاں اور ایک چھوٹا لڑکا تھا۔ وہ لوگ اپنے علاقے کے شیعہ سید تھے۔ عین اسی وقت ہمارے گھر کے قریب ہم نے ایک الگ 5 مرلے زمین پر دو کمرے اور ایک برآمدہ ٹائپ بنایا تھا ۔ کبھی مال مویشی ، کبھی گھر کا کباڑ ، کبھی کسی کی شادی کی دیگیں ، ہماری خراب سائیکلیں اور بھی بہت سا کباڑ اس میں تھا ۔ کچھ پنکھے اور امی جان کا ایک بڑا صندوق جس میں بسترے وغیرہ تھے اور مہمانوں کیلئے سامان ، وہ بس اس ایک کمرے میں ہوتا تھا ۔ ایک رات اچانک والد صاحب نے ہمیں وہ ڈاگ صاف کرنے کا کہا۔ اور گھر سے وہ بجلی کی تار اور بورڈ سے لائیٹ لگا کر رات بھر صفائی ہوتی رہی۔ ہم نے کچھ ضروری سامان ایک کمرے میں رکھ کر تالہ لگایا اور وہ ایک کمرا ، چارپائیاں اور بسترے وغیرہ نئے نکالے اور وہ کھلا چھوڑا ۔ کافی رات میں ایک بچہ اور پانچ عورتیں ایک پک اپ میں آئے اور ایک مرد ۔ ان کے پاس بس گنتی کے کچھ سوٹ کیس تھے۔ خیر وہ وہاں اس ڈاگ نما گھر میں چلے گئے۔ صبح والد صاحب نے تھرماس چائے اور بازار کی روٹیاں وہاں دینے کا کہا۔ اچھا ہم تھے گھر کے نوکر اور باہر دنیا کیلئے نواب ، تو ہم چلے گئے ۔ ، پہلی مرتبہ اپنے ہی گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا ، پھر سے ، اور پھر ایک دفعہ پھر ، جناب اندر لوگ جاگے ہوئے ہیں۔ مگر کوئی دروازے پر نہ آیا ۔
واپس آیا ، امی سے غصے میں آکر کہا۔ کیسے عجیب ناشکرے پینڈو لوگ ہیں ، اندر سے کوئی دروازہ کھولنے نہیں آتا ۔ اتنے میں والد صاحب بھی آگئے ۔ ہنس کر کہا۔ بیٹا جی وہ ہر کسی کیلئے دروازہ نہیں کھولتے۔۔ قسمت والوں کیلئے وہ دروازہ کُھلتا ہے ۔۔ اور یہ بات کرکے والد صاحب نے امی سے کہا۔ کہ وہ خود جائیں اور واقعی میں امی خود چلی گئی۔ اور ان لوگوں سے مل کر آ گئی اور امی نے وہ کہانی سنائی کہ مت پوچھ۔ کہتی ہے اس نے اتنے حسین اور خوبصورت لوگ پہلے نہیں دیکھے۔ اور وہ چھوٹا وہ لڑکا بھی امی کیساتھ آیا ۔ اور امی نے کہا یہ لو دوسرے کمرے کی چابی اور ان لڑکیوں سے کہنا وہ والا کمرا ٹھیک کرلے اور ہمیں نہیں پتہ تھا کہ آپ کتنے فرد ہو ۔ خیر اب یہ سارا منظر کچھ عجیب سا تھا ، ۔ وہ بچہ بھی خاموش ، نہ ہم سے بات کرے ، نا کچھ بولے ، خوشی خوشی چلا گیا ۔ اب جو بھی اس بچے سے ملے ، یا کوئی اس گھر سے ہوکر آئے بس ان کی تعریفیں کرتا رہتا ہے۔ کہ ان لڑکیوں نے وہ گندا گھر صاف کر دیا ۔ آج ان لڑکیوں نے فروٹ چاٹ بنایا ، آج انہوں نے وہ کیا ، یہ کیا ۔ بس ہم سنتے رہے ۔ خیر دوسری طرف محلے میں ایک خبر چلی کہ حاجی صیب نے کافروں کو جگہ دی اور یہ اور وہ ، ایک دن ہمارے والد کو غصہ آیا اور بھرے مسجد میں کہا، یہ مسجد کی زمین بھی میرے باپ دادا نے دی تھی ، میں نے کبھی کسی کو روکا ہے مسجد میں آنے سے ؟ تم محلے داروں میں کچھ ایسے منافق ہیں جن کو دل چاہتا کہ ہاتھ پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دوں لیکن کیا کروں تم لوگوں نے تو میرے باپ دادا کی زمین پر بنی مسجد کے بھی جعلی کاغذات بنا دیے۔ خیر شام کو جو مسجد میں ہوا وہ قصہ سید صیب تک پہنچ گیا ۔ وہ کسی کام سے شاید پشاور گئے تھے ، وہ دوسرے دن عشاء کے وقت آئے ، بولے ، بس کچھ دنوں میں کچھ نہ کچھ بندوبست کرکے وہ چلے جائینگے۔ اب جس ادب سے میرے والد ان کی عزت کرتےتھے ۔ میں بھی حیران ہوں۔ اچھا ان کا دروازہ بند ۔ نہ گھر سے کوئی شور ۔ سارے بس بڑی بڑی کالی چادریں ۔ اور خاموش سفید چہرے لیے کالی چادروں میں ایک آسمانی مخلوق ۔
ان دنوں پی ٹی وی ورلڈ اور ڈش کا زمانہ تھا ۔ کیبل کوہاٹ میں نہیں تھا ۔ تو وہ بچہ جب کچھ ہم سے مانوس ہوا تو کہتا تھا ۔ ہمارے گھر میں ٹی وی کمپیوٹر سب تھا ۔ مگر یہاں کچھ نہیں ۔ اور وہ بیچارا ہمارے گھر آتا اور کہتا میں کارٹون دیکھوں ؟ اور بہت ادب احترام سے بیٹھ جاتا ۔
خیر محلے والے ہمیں کافر اور ہندوؤں سے بدتر سمجھنے لگے تھے۔ وہ ایک الگ کہانی ہے جو پھر کبھی محلے کے لوگوں اور ان کرداروں پر اگر کبھی لکھا تو بتا دونگا۔
ہمارے کچھ رشتہ دار آنے والے تھے ۔ وہ سید خاتون کو پتہ چلا ، امی وہاں سے کچھ بسترے وغیرہ لا رہی تھی۔ تو اس نے اپنی دو بیٹیاں امی کیساتھ بھیج دی کہ جاؤ اس کی مدد کرو کچھ کھانا پکانے میں۔
اور میرا معمول یہی تھا کہ سیدھا کیچن میں فریج چیک کرکے امی کو سلام کرکے چائے کا کہتا اور اگر کوئی کھانے کا ہوتا تو اٹھا کر سیدھا اوپر والی چھت پر پلے سٹیشن 1 گیم کھیلنے پہنچ جاتا۔
آج جی ہمارے کیچن میں کچھ عجیب خوشبوں اور دو کالے چادروں میں لپٹی لڑکیاں ، اول تو میں ڈر سا گیا ، خدایا کدھر جِن تو نہیں۔ کیونکہ یہ لوگ تو کیسے کے گھر جاتے نہیں تھے ۔ اور ہمارے گھر میں مہمان آ بھی جائیں تو وہ کونسا کیچن میں بیٹھتے ہونگے ۔ ، اور بس ایسی وجہ سے نہ کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہمارے گھر میں یا کیچن میں کوئی ہوگا ۔ امی بھی نہیں ۔ اور میں جیسے کیچن گیا کچھ لمحوں کیلئے بس رک گیا ۔ اور جب خیال آیا کہ یہ مخلوق تو کوئی اور دنیا کی ہے ، ۔ شرم کے مارے واپس گھر سے باہر بھاگا ۔ خدایا یہ بھی آج ہونا تھا۔ واپس آیا تو سیدھے امی سے یہ بھی صاف کہہ دیا کہ میں نے زندگی میں ایسے خوبصورت لوگ کبھی نہیں دیکھے۔ امی نے چپل اُٹھایا اور کہا بجائے شرمندگی کے ، تم اُلٹی سیدھی باتیں بکنے بیٹھ گئے۔
اچھا جب ان کی امی آتی تو وہ مجھے کہتی، تم میرے بیٹے ہو ۔ اس لیے تم سے پردہ نہیں کرتی ورنہ ہمارے گھروں میں عورتیں سات سال کے بچے اور میل -نر جانوروں سے بھی پردہ کرتی ہیں۔ اور اس کی باتیں کبھی کبھی مجھے سوچ میں بھی ڈال دیتی کہ یہ کونسی دنیا کے لوگ ہیں۔
ایک دفعہ ہمارے ایک رشتہ دار کا کوئی بچہ بہت ضدی اور بس جب سے پیدا ہوا تھا بیمار تھا ۔ ہر ڈاکٹر کے دیکھایا ۔ مگر بچہ دن بہ دن کمزور ہوتا گیا۔ سید صیب ہمارے ہاں دکان پر بیٹھے تھے کہ وہ بچہ بھی آگیا ۔۔۔ تو والد صاحب نے کہا ۔ سید صیب ، اگر اپ ہمارے بچے کو کچھ دم کردو ۔ سید صیب نے بھی مذاق میں کہا ۔ تمھیں دم کی کیا ضرورت ، اور کہا انگریزی علاج کیساتھ ساتھ رسول کے گھر والوں کی بھی مانو ، ہمارے رسول خود کو دم کرتے تو بھلا کیا پڑھتے ؟ قران پڑھتے ، اپنے بچوں کیلئے دعا کرتے ، تو علاج تو بس کلام اللہ ہے اور دعا ہے ، پھر بھی اگر تم کہتے ہو تو لاؤ اس بچے کو اور ہم اپنے ہاتھ سے اسے پانی پلاتے ہیں۔ ، پہلے قران کی کچھ صورتیں پڑھیں پر درود پڑھ کر ہاتھ اُٹھائے اور دعا کی ، ، اے رب تو اپنی شان اور جلال کے صدقے اس بچے کو ٹھیک کردے اور وہ پانی اس بچے کو پلایا اور اس کے والد کو کہا ، جب یہ گھر آئے تو اسے ہمارے گھر بھیج دینا ، ٹھیک ہوجائے گا ، اور اس کے والد کو نصیحت کی کہ، بیٹا صدقہ خیرات مسلسل کرتے رہا کرو ۔
کچھ عرصہ بعد واقعی وہ بچہ ٹھیک ہوگیا اور میں یہ سب میرے گنگار آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں ۔
جب جب سید صیب سے دین پر بات ہوتی ، وہ کہتے بیٹا عوام اور عام لوگ ، ان کے جذبات اور پیر پرستی اور فراسٹیشن کیلئے یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ اب کون ولی یا اللہ والے لوگ باقی ہیں۔
کوئی میلاد کے نام پر کھا رہا ہے۔ کوئی ذاکر جوش اور ولولے کیوجہ سے محرم کے سیزن میں کچھ کما لیتا ہے۔ کوئی منگھڑت قصے کہانیاں سنا کر لوگوں کو بے وقوف بنا دیتا ہے۔ نہ کوئی علی والا پریکٹیکل بنتا ہے نہ کوئی حسینی ، بس ٹوپی ڈرامے ہیں مگر ہماری عوام اور لوگوں کی عقیدت اور باپ دادا کے نام اور ان کی عزت کیوجہ سے ہم بھی چُپ رہتے ہیں۔
وہ لوگ تو خیر چلے گئے ، مگر ان کی ہر بات ، ہر چیز ، ہر عادت ، ہر عمل ، سیدھا سادہ، پاک صاف ، اور اسلام کے کافی حد تک مطابقت کیساتھ ۔ اب جب ہم بڑے ہوگئے ، کچھ نہ کچھ اپنی دینی اور اصلاحی تعلیم پر غور کرنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ صحیح اسلام سے تو ہم بہت دور ہیں۔ ہر کسی کی مسجد الگ، ہر کسی کا امام الگ، کسی نے محرم پکڑا ، کسی نے صحابہ ، کسی نے حدیث پکڑی تو کسی نے پیری اور بہت کچھ، اس ساری تفصیل کا واحد مقصد یہ ہے کہ کسی سے آج کے دور میں اختلاف کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ حج میں ہوتا ہے ، سارے طواف کرتے ہیں، کالے گورے ، غریب امیر ، دیوبندی ، بریلوی ، شیعہ ، سارے ، بس ایسی طرح ہماری زندگی بھی ایک طواف کی مانند ہے، ہمیں اپنی طواف پر سوچنا چاہیے۔ اور جس کسی میں بھی کوئی اسلامی عمل یا چیز ہاتھ لگے اور دل اور دماغ اسے قبول کرے ۔۔۔ تو کوشش کرو کہ اسے اپنے عمل اور اپنے زندگی کی طواف میں شامل کرو ۔
آپ کا ایڈمن
کوہاٹ انسائیڈر