قسط دوم:-
گھکول شریف کا وزٹ-
ایک دفعہ کالج سے ہم کچھ دوست کے ڈی اے والے کالج کسی دوست سے ملنے گئے۔ شاید 2006-2007 میں۔ وہاں پتہ چلا کہ گھمکول شریف زیارت ۔۔۔ کالج کے ٹھیک پیچھے ہےاور کیمپ سے سیدھا راستہ جاتا ہے ۔
خیر ہم دوست تھے بھی دس پندرہ تو ایک سوزوکی میں جانا ممکن نہیں تھا ۔ پیدل چلنے لگے ۔ کیمپ کی خواتین پردہ کیے ہوئے پہاڑوں سے لکڑیاں جمع کرنے باہر کام کاج کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ بچے سردی کی دھوپ میں بغیر چپل کھیل رہے تھے اور کچھ عورتیں وہ NGOs والی کنوؤں سے پانی بھر رہی تھیں۔ ۔ کیمپ کا بازار بھی بہت پیارا تھا ۔ وہاں سے کچھ مالٹے اور پانی اور سگریٹ خرید کر ہم روانہ ہوئے ۔
گھمکول تک پہنچنے کیلئے تقریباً ایک گھنٹہ واک ہوگی۔ وہاں پہنچے تو اس وقت اتنا کام نہیں ہوا تھا ۔ وہ الگ سے مسجد اور عمارتیں نہیں تھیں۔ کچھ کنسٹرکشن کا کام چل رہا تھا شاید ۔
مزار میں داخل ہوئے تو ایک شخص گھمکول کے قبر کے گرد تیز تیز چل رہا تھا ۔ ایک سائیڈ پر بیٹھا قران پڑھ رہا تھا ۔ اور ایک پُر آسرا ر قسم کا شخص مزار کے عین دروازے کے کنارے خاموش بیٹھا ہوا تھا ۔
وہاں ہم نے فاتحہ اور آیت کرسی پڑھے اور دل ہی دل میں کہا ، یا اللہ لوگ کہتے ہیں ، یہ آپ کا بزرگ اور ولی تھا ، اے اللہ اسکی مغفرت کرنا، اور ہمارے پیارے نبی کے صدقے اس بزرگ پر اور ہم سب پر رحم کرنا ۔ ، اور ہم گنہگاروں کو بھی آخرت میں معاف کر دینا ۔
باہر آیا تو کالج کی دوستوں کی شرارتیں ، سارے گھمکول میں شور ، کوئی لنگر خانے میں جا رہا ہے۔ کوئی کہا تو کوئی کہا۔ خیر گھمکول والوں کو بھی خبر ہوگئی کہ شیطان کے چیلے پہنچ چکے ہیں۔
ایک خادم ٹائپ شخص آیا اور ہمیں مزار سے جانے کا کہا ۔ اس پر کالج والے بھڑک گئے اب جی ، میں نے ایک دوست کے ریفرنس دیا ، اور ساروں کو لنگر کی جگہ بیٹھا دیا اور کہا ، ان کو چائے پلادیں۔ ہم سارے چلے جائینگے۔ غیر وہ پنجابی خدمت گار تھے ۔ ان سب نے پانی اور چائے پلائی۔ کوئی مزار کا خادم بھی آیا اور اسے اپنے داد اور ایک ہمارے کوہاٹ شہر کے دوسرے پیر کا قصہ بھی سنایا ۔ اور کہا کہ ہم نے سنا یہ تین دوست تھے ۔ مگر غیر دادا سے وہ اپنے پیر صیب کا بہت سنا تھا ، گھمکول کے بارے کبھی نہیں سنا ، مگر یہ جانتے تھے کہ وہ پیر صیب گھمکول کا بہت جگری یار تھا ۔ خیر واہاں مزار پر لائیٹس۔ پانی کی مشینیں، ہری بھرے کھیںت اور باغات دیکھے اور یہاں تک کہ ان کھیتوں کو ٹیوب ویل سے پانی دیا جا رہا تھا ۔ اور جرنیٹر تک لگے تھے۔ اور کچھ ہی دور جب ہم آرہے تھے تو میں نے کیمپ والی غریب عورتوں کو لوہے کے پمپ مار کر لمبی قطار میں پانی بھرتے دیکھا تھا ۔ یہاں مزار کے اندر والے حصے میں پنجاب کے بھینس کا دودھ ، وہاں کیمپ میں روتا ہوا بچہ سوکھی روٹی اور ساتھ میں کڑوی سبز چائے ۔
یہاں پر پیر صیب کی مزار پر ایک سے بڑھ کر ایک چادر ،زمیں پر ماربل اور سردی کیلئے قالین، وہاں کیمپ میں ایک چھوٹی بچی جس کے ہاتھ سردی سے کالے اور کھردرے اور اس کا دوپٹہ جگہ جگہ سے پھٹہ ہوا ۔
اس دن جو دیکھا ، بس سوچتا رہا ، اللہ کی تقسیم ہے ، لوگوں کے عقیدے اور ایمان کی بات ایک طرف مگر واللہ کسی پیر یا ولی کو آج تک ایک روپیہ صدقہ یا چندہ نہیں کیا ۔ جب بھی خیرات کی نیت کی ، کسی نہ کسی طرح اللہ کی مخلوق میں اس طرح کے غریب لوگ دیکھے ، اور جو کچھ ہوا ، وہ دے ڈالا۔
نہ کبھی کوئی منت مانگی، نہ کبھی کسی تعویز کی ضروت ہوئی، نہ کبھی کسی جن یا جادو کا ڈر لگا۔
اور یہاں تک کہ جب جب اللہ سے بھی کچھ دعا میں مانگا ہے تو بس اتنا کہا کہ اللہ جو کر اور سوچ رہا ہوں۔ تو سن اور دیکھ رہا ہے۔