قسط چار 4:-
ہنڈا بائیک اور ہمارا استاد :-
ایام جاہلیت میں ہمارے پاس درے سے چرس اور گندی فلمیں آتی تھیں۔ جس میں ایک خاص حصہ ہمارے موٹرسائیکل کے مستری کیساتھ اظہارِ پین یکی کیوجہ سے شیئر ہوتا تھا ۔ اس وجہ سے ہم نے استاد کو کبھی مزدوری یا ہماری ٹھیک بائیک کو خراب کرنے کے پیسے نہیں دیے۔
ہوا کچھ یو کہ ہمارے استاد کو ہر وہ کام آتا تھا جو کسی بائیک میکینک کو نہیں کرنا چاہیے۔ استاد اپنی دنیا کا الیکٹریشن ، ترکان، کاریگر ، ڈرائیور ، باورچی، کمانڈو ، چور ، بدمعاش ، پٹواری ، ٹھیکیدار ، باغبان ، اور بہت سارے کام کا ماہر تھا بس سوائے موٹرسائیکل کے۔ مگر موصوف کا کام دھندہ موٹرسائیکل کا تھا ۔ بات بات پر ٹنکی کے پٹرول پر اپنا وضو تازہ کرتا۔ نئے ہنڈا کی ماں بہن ایک کرتا اور کوہاٹ ٹریفک پولیس کو گالیاں دیتا کہ جب سے اس نے ہیلمٹ کی خرید و فروخت شروع کی پولیس نے کوئی ایکشن ہی نہیں لیا ۔ مجال ہے کہ کہیں استاد نے کوئی مسئلہ حل کروایا ہو۔ استاد کے قصے بہت تھے۔ بس ایک قصہ جو ہر شخص کو سناتا کہ پنڈی میں استاد نے پنڈی کی لڑکوں کو کام کرنا سکھایا ۔ پوری بائیک کھولی ۔ اور سب کچھ مگر وہ بائیک شاید آج تک واپس فِٹ نہ ہوسکی۔ ایک دفعہ استاد نے ایک پرانی کاواساکی لی۔ تقریباً چھ مہینے بعد استاد نے کاواساکی کے گئیر سمجھ لیے اور شاید استاد تین چار بار اپنی ہی بائیک پر گرے اور لیاقت ہسپتال گئے ۔ استاد کو لاکھ سمجھانے کے بعد بھی استاد جب بھی پٹیاں کھولتا واپس اپنی عجیب و غریب کاواساکی سے گر کر زخمی ہوتا۔ استاد ایک دفعہ چترال بھی گیا اس بائیک پر اور جھیل سیف الملوک تک گیا۔ استاد نے کراچی ، کوئیٹہ اور گوادر تک کا سفر کیا اور تعجب کی بات ہے کہ استاد کبھی جرونڈے سے باہر تک نہیں گیا۔
استاد واحد شخص تھا جس نے سب سے پہلی بار کوہاٹ ٹنل میں ون ویلینگ کی اور استاد ہر کسی کو یہ مشورہ ضرور دیتا کہ سی ڈی سیونٹی سے 125 اچھا ہے ۔ استاد کو یاماہا اور سوزوکی کے بائیک پر بھی صرف کھولنے اور خراب کرنے تک کا عبور حاصل تھا ۔ استاد نے کاروبار بڑھانے کیلئے بنک سے قرضہ بھی لینا چاہا مگر وہ نہیں ملا ورنہ استاد کوہاٹ میں اپنی بائیک فیکٹری لگاتا ۔ استاد کے شاگردوں کی لسٹ بھی کافی لمبی تھی۔ فیورٹ تھا پپو۔ پپو بذات خود چھوٹا موٹا چور اور نہایت ہی کام چور انسان تھا ۔ پپو کی کوہاٹ کے تھانے میں بھی جان پہچان تھی کیونکہ پپو پر بکری چوری ، مرغی ، کبوتر اور یہاں تک کتے چوری کرنے کے الزام تھے۔ پپو ہر بائیک کی لائٹنگ کو برباد کرنے کا ماہر تھا ۔ اور پپو کا تجربہ سوائے بد ذائقہ چائے بنانے کے کچھ نیں تھا ۔
استاد جب بھی کسی بائیک کو برباد کرتا ، پپو تعریف میں کہتا ۔ استاد ، فرسٹ کلاس ہوگیا کام۔ استاد کا ایک جگری دوست یورپ گیا تھا اور استاد اکثر یورپ جانے ، انگریزی لڑکیوں کو موٹر بائیک پر اپنے ساتھ گھمانے کے خواب دیکھتا اور استاد خود کو اجے دیوگن کیطرح ہیرو سمجھتا اور کمار سانو کے گانے سنتا ۔
استاد کو اپنے علاقے کی ایک لڑکی سے عشق بھی تھا ۔ جس کے نام کے پہلے حرف کو وہ اپنی ہر چیز پر لکھتا ۔ استاد نے سگریٹ سے اس کا نام بھی لکھا تھا مگر کمزوری اور لاچاری کیوجہ سے وہ زخم بن گیا ۔ استاد کے کمالات کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ جو سنتے سنتے ہم جوان ہوئے اور بہت وقت ضائع کیا۔
تو آج کی شام استاد کے نام ۔
آپ کا ایڈمن
کوہاٹ انسائیڈر